Aj Bchay To Kal Khay (Bachon Ky Keye Aek Sabaq Amoz Or Kubsurat Kahani) A Beautiful And Moral Story For Kid's_Urdu_Hindin
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گھر میںں پیاری سی لڑکی مینا رہا کرتی تھی۔
وہ سارا دن گھر کا کام کرتی اور رات کو تھک ہار کر سو جاتی۔ اس کے گھر میں چوہے بہت تھے اور وہ چوہوں سے بہت ڈرتی تھی۔ اس نے اپنی پڑوسن سے چوہوں کی مصیبت کا ذکر کیا تو اس نے مشورہ دیا کہ وہ بازار سے ایک بلی خرید لائے، گھر میں جب بلی آ جائے گی تو چوہوں سے خود بخود نجات مل جائے گی۔ مینا کو یہ مشورہ بھلا لگا۔
اس نے کی دکان پر فون کیا اور اسے چوہوں کو کھانے والی بلی کو لانے کی ہدایت دی۔ دکان دار نے کہا کہ وہ بے فکر رہے شام تک بلی اس کے گھر پہنچ جائے گی۔ جب شام ہوئی تو کوئی بڑی سی پالنے والی ٹوکری اس کے دروازے پر رکھ کر چلا گیا۔ اتفاق سے ایک موٹا چوہا اس طرف آ نکلا۔ اس نے دروازے پر ٹوکری دیکھی تو وہ سوچ میں پڑگیا کہ یہ تو بچوں والی ٹھوکری دکھائی دیتی ہے اس میں کیا ہو سکتا ہے؟ چوہے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو آگاہ کرنے کی ٹھانی۔ وہ جب اپنے ساتھیوں کے پاس جا رہا تھا۔ اسی وقت مینا باہر نکلی اور ٹوکری اٹھا کر اندر لے گئی۔ چوہا چلتے چلتے ٹھٹھک کر رک گیا اور تجسس کے مارے مینا کے پیچھے اندر کمرے میں چلا آیا۔ اس نے دیکھا کہ مینا ٹوکری میز پر رکھ کر اسکا ڈھکن کھول رہی تھی۔
وہ دبک کر ماجرا دیکھنے لگا۔ مینا نے ٹوکری میں سے ململ کا ایک کپڑا نکالا اور ٹوکری سے باہر پھینکنے لگی۔ جب کافی سارا کپڑا نکال چکی تو چوہے کو مدھم سی آواز سنائی دی۔ آواز کچھ مانوس تھی مگر اسے کچھ یاد نہیں آرہا تھا کہ اس نے یہ آواز پہلے کہا سن رکھی ہے؟ اسے اپنے ذہن پر زیادہ زور نہیں دینا پڑا کیونکہ اگلے ہی لمحے ایک سرخ بلی مینا کے بازوؤں میں دکھائی دے رہی تھی۔
بلی کے جسم پر ہلکے رنگ کے دھبے تھے۔ بلی کافی پڑی ہوئی اور موٹی تازی تھی۔ بلی کو دیکھ کر چوہے کی جان ہی نکل گئی۔ اس کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا۔ وہ بمشکل بھاگ کر اپنے بل میں پہنچا۔
مینا نے گھر میں بلی لاکر چوہوں کی شامت بلا تھی۔ وہ ہانپتا ہوا وہاں پہنچ گیا جہاں اس کے ساتھی کھانا کھانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ انہوں نے جب موٹے چوہے کو دیکھا تو ہنس کر اسے آواز دی وہ بھی کھانے میں شریک ہو جائے ایسا نہ ہو کہ کھانا ہی ختم ہو جائے۔ موٹا چوہا پریشانی کے عالم میں کرسی پر بیٹھ کر اپنی سانسیں درست کرنا لگا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھ کر اس کے ساتھی چوہے بھی پریشان ہوگئے۔ ایک نے پوچھا خیریت تو ہے نا؟ موٹا چوہا اس دوران سنبھل چکا تھا۔ اس نے ہاتھ ہلا کر بتایا کہ مینا نے ان سے چھٹکارا پانے کے لیے بازار سے بلی لے آئی ھے جو بہت موٹی تازی ہے، اس کی صورت سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ چوہے کھانے میں بڑی ماہر ہے۔ یہ سن کر دوسرے چوہے بھی پریشان ہوگئے۔ ایک چوہا گھبرایا ہوا بولا کہ اب کیا کیا جائے؟ موٹا چوہا کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا کہ میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا مگر آنے والے دنوں میں بلی کا جائزہ لے کر کچھ نہ کچھ ضرور بتاؤں گا، تم لوگ ذرا احتیاط سے باہر نکلنا ایسا نہ ہو کے بلی کے جھپٹے میں آجاؤ۔ سب چوہوں نے وعدہ کیا کہ وہ سب دیکھ بھال کر باہر نکلا کریں گے۔ اس کے بعد جو ہے کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔
دوسری طرف مینا بلی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے بلی کے لیے ٹوکری میں نیا بستر لگایا اور ٹوکری کو میز کے نیچے رکھ دیا۔ بلی کچھ دیر تک تو ٹوکری میں بیٹھی رہی،
پھر ٹوکری سے باہر نکل کر گھر کا جائزہ لینے لگی۔ اسے گھر میں سے چوہوں کی بدبو آرہی تھی۔ بلی نے کونوں کھدروں میں دیکھا مگر چوہے بلی سے پہلے ہی مطلع ہو کر ہوشیار ہو چکے تھے۔ بلی چلتے پھرتے صوفے پر جا بیٹھی۔ سوفہ بڑا نرم تھا۔ بلی چوکڑی لگا کر اس پر بیٹھ گئی۔ بلی نے اگلے چند دنوں میں ڈھیر سارے بچے دے دیے جو گھر میں اودھم مچاتے پھرنے لگے۔ چوہوں کی تو اب جان پر بن گئی تھی۔ پہلے تو وہ بلی کو جل دے کر کچھ نہ کچھ خوراک حاصل کر ہی لیتے تھے مگر اب وہ جس طرف سے نکلتے، سامنے انہیں بلی کا بچہ کھیلتا ہوا نظر آ جاتا۔ تھوڑا ہی دنوں میں چوہوں کی خوراک کا ذخیرہ بالکل ختم ہوگیا۔ چوہے بھوک سے نڈھال ہوکر بل سے باہر نکلے اور بلی کا نوالہ بن گئے۔ کچھ چوہے بلی کے بچوں کے ہاتھ لگ گئے جنہوں نے انہیں فٹبال کی طرح لڑھکایا کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تین چار چوہے اب باقی بچے تھے جن میں موٹا چویا بھی شامل تھا۔ وہ تو کھانا نہ ملنے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہو چکا تھا۔ وہ کئی دن سے کھانا نہ ملنے پر اپنی بل میں ایک پتھر پر بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔ اس کا ایک ساتھی چوہا ادھر آ پہنچا۔ اس نے نیلے رنگ کی پرانی سی شرٹ پہن رکھی تھی۔ اس نے موٹے چوہے کو آنسو بہاتے دیکھا تو پریشان ہو گیا۔ اس نے موٹے چوہے کے قریب آکر معاملہ دریافت کیا۔ موٹا چوہا روتے ہوئے بولا کہ "اس کے ساتھی ایک ایک کرکے بلی اور اس کے بچوں کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں، وہ سب دبلے پتلے تھے اچھی طرح بھاگ سکتے تھے۔ وہ پھرتی کے ساتھ اوپر گھر میں جاتے اور اپنےلیے کھانا چرا کر لاتے۔ اسی کھانے میں اسے بھی کچھ حصہ مل جاتا تھا مگر وہ اب کیا کرے؟ اگر وہ باہر نکلا تو یقینا بلی کے ہاتھوں لگ جائے گا کیونکہ وہ بہت موٹا ہے اور اچھی طرح تیز بھاگ نہیں سکتا۔ کئی دن گزر چکے ہیں اسے کھانا نصیب نہیں ہوا۔ اب وہ روئے نہ تو اور کیا کریے؟" دبلے چوہے نے اس کی بات سنی تو کہنے لگا، "یہ بات تو سچ ہے کہ تم پیٹو ہو اگر تم کم اور مناسب خوراک کھاتے تو نہ صرف ہمارے پاس کھانے کا ذخیرہ زیادہ بچ سکتا تھا بلکہ تمہیں بھی نقل و حرکت کرنے میں آسانی رہتی۔ گزرا ہوا وقت کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔ تم یہیں ٹھہرو! میں اوپر جا کر کھانے کا کچھ بندوبست کرتا ہوں۔ جو کچھ مل پایا میں وہ لے کر آؤں گا لیکن یہ بات ہمیشہ کے لیے پلے باندھ لو کہ آج اگر بچا کر کھاؤ گے تو بچا ہوا کھانا کل کام آئے گا۔ اگر تم اب بھی نہ سمجھے تو میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ موٹا چوہا اس کے بات سن کر پہلے ہی کافی شرمندہ تھا۔ اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ تھوڑی گزار کھائے گا اور کل کے لیے کچھ نہ کچھ بچا کر رکھے گا۔ دبلا چوہا اسے وہیں چھوڑ کر گھر میں چلا آیا۔ اسے موٹی چوہے کے لیے کھانا چاہیے تھا۔ وہ چھپتا چھپاتا باورچی خانے کی طرف نکل گیا۔ مینا اس وقت کمرے میں کپڑے سمیٹ رہی تھی۔ بلی اور اس کے بچے کمرے میں اچھل کود کر رہے تھے۔ دبلا چوہا محتاط انداز میں باورچی خانے میں پہنچا اور ادھر دیکھ کر اس نے زمین پر پڑا ہوا ایک روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور واپس دوڑ لگا دی۔ وہ اندھادھند بھاگ رہا تھا وہ بار بار مڑ کر دیکھتا کہ کہیں بلی اس کے تعقب میں تو نہیں ہے۔ جب وہ اپنی بل میں گھس آیا تو اس نے شکر کا کلمہ ادا کی اور سانس درست کرکے موٹے چوہے کے پاس چلا آیا۔ موٹا چوہا روٹی کا بڑا ٹکڑا اس کے پاس دیکھ کر بہت خوش ہوا دبلے چوہے نے روٹی کو توڑ کر نصف کیا اور آدھا ٹکڑا اس کی طرف بڑھا دیا۔ موٹا چوہا یہ دیکھ کر مایوس ہو گیا۔ اتنی سی روٹی سے اس کا بھلا کیا بنے گا؟ اس نے باقی ٹکڑا بھی مانگا مگر دبلے چوہے نے اسے کچھ دیر پہلے کا وعدہ یاد دلایا تو وہ شرمندہ ہو گیا۔ دونوں نے مل کر تھوڑا تھوڑا کھانا کھایا۔ دوسری طرف مینا کو بلی کی وجہ سے چوہوں سے تو نجات مل چکی تھی مگر بلی اور اس کے بچوں نے گھر بھر میں گندگی پھیلانا شروع کر دی کے مینا کی ناک میں دم آگیا۔ اس نے سوچا کہ کم ازکم چوہے گندگی تو نہیں پھیلا دیتے اس نے اپنے پڑوسن سے اس بارے میں مشورہ کیا کہ وہ اب کیا کرے؟ پڑوسن نے مشورہ دیا کہ اب چونکہ چوہے گھر میں سے ختم ہوچکے ہیں اس لئے بلی کو رکھنے کی ضرورت نہیں ہے زیادہ بہتر یہی ہے کہ تم بلی اور اس کے بچوں کو بیچ ڈالو۔ اس سے کچھ رقم ہاتھ لگ جائے گی اور روز روز کی مصیبت سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ مینا کو اس کا مشورہ اچھا لگا۔ اس نے ایک دن بلی کے تمام بچے پکڑ کر ٹوکری میں ڈالے اور ٹوکری کا منہ بند کر دیا۔ وہ صرف بلی کو گھر میں رکھنا چاہتی تھی اور اس کے بچوں کو پورا فروخت کرکے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ بلی نے جب اپنے بچوں کو تو تو ٹوکری میں بند دیکھا تو پریشان ہوگئی۔ مینا نے ایک بیل گاڑی روکی اور ٹوکری اس میں رکھ کر بیٹھ گئی بلی بھی چھلانگ مار کر بیل گاڑی میں چڑھ گئی شاید وہ اپنے بچوں سے دور رہنا پسند نہیں کرتی تھی۔ موٹا چوہا گھر کے باہر ایک چھوٹے سے پودے کی آڑ میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔ جب مینا بچوں اور بلی سمیت بیل گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلی گئی تو اس نے خوشی کا نعرہ لگایا۔ اب اسے بلی کا کوئی خوف نہیں تھا وہ سکون اور بے خوفی سے اپنے لیے کھانا ڈھونڈ سکتا تھا۔ بلی کی آمد سے اسے یہ احساس ہو چکا تھا کہ زیادہ کھانا پینا صحت کے لئے اچھا نہیں ہوتا وہ آئندہ تھوڑا کھانا کھا کر اپنی صحت اچھی بنا سکتا تھا اور کچھ کھانا بچا کر آنے والے کل کی مصیبت سے باآسانی لڑ سکتا ہے۔ اس طرح صحت بھی اچھی رہتی اور کل کی فکر میں پریشانی بھی نہ اٹھانا پڑتی۔
Comments
Post a Comment