ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گاجروں کے کھیت کے کنارے دو خرگوش رہتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش و خُرم زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی دوستی بڑی مضبوط تھی۔ ہر مشکل گھڑی میں وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے۔ دونوں خرگوش سارا سارا دن کھیت میں گھسے رہتے اور کھیت سے گاجریں نکال نکال کر کھاتے رہتے۔ کھیت کا بوڑھا مالک ان سے بڑا تنگ تھا کیوں کہ وہ زیادہ گاجریں کھانے کی بجائے نکال کر پھینک دیتے تھے۔ کھیت کا بوڑھا مالک انھیں پکڑنے سے معذور تھا کیونکہ وہ ان سے تیز نہیں بھاگ سکتا تھا۔ اُس نے کئی بار کوشش کی کہ وہ خرگوشوں کو کسی طرح وہاں سے بھگا دے مگر وہ ہر بار ناکام رہا۔ بالآخر خرگوشوں کی حرکتوں سے تنگ آکر کھیت کے مالک نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آئیندہ گاجریں کاشت نہیں کرے گا کیونکہ ساری فصل خرگوشوں کی وجہ سے خراب ہو جاتی تھی۔
موسم سرما کے آغاز میں کھیت کے مالک نے گوبھی کی فصل کھیت میں لگائی۔ گوبھی کے بڑے بڑے پتے کچھ ہی دن بعد زمین سے نمودار ہونا شروع ہوگئے۔
حسب عادت خرگوشوں نے ان کی جڑوں میں گاجروں کی تلاش شروع کی مگر انہیں وہاں کچھ نہ ملا۔ خرگوش گاجریں نہ پا کر بہت پریشان ہوئے۔ مجبوری کے عالم میں غذا کی تلاش میں وہ ادھر ادھر نکل جاتے اور کچھ نہ کچھ ڈھونڈ کر گزارا کر لیا کرتے۔
جاڑے کا سخت موسم شروع ہوگیا تو خرگوشوں کے لیے زندگی گزارنا بہت دشوار ہوگیا۔ کھیت میں ایسی کوئی آرام دہ جگہ نہیں تھی جس سے وہ سردی سے محفوظ رہ سکتے۔
خرگوشوں کے پاس ایک ہی باریک سی سرخ رنگ کی چادر تھی جس میں وہ دونوں دبک کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے چادر اتنی بڑی اور گرم نہیں تھی کہ ان دونوں کو سردی سے محفوظ رکھ پاتی۔
ایک دن ایک خرگوش نے یہ فیصلہ کیا کہ چادر کو دوہری کرکے ایک ساتھی اوڑھ لیا کرے جبکہ دوسرا اس دوران بھاگ دوڑ کر اپنا جسم گرم کر لیا کرے۔ اس طرح کم از کم ایک خرگوش تو سردی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
دونوں خرگوش باری باری چادر اوڑھ کر گرمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے کھلے آسمان کے نیچے چادر زیادہ سودمند ثابت نہ ہوئی۔ سردی کے مارے ان کی جان نکلنے لگی۔ ایک دن ایک خرگوش کھیت کے نالے میں چادر اوڑھے ہوئے لیٹا پڑا تھا کہ وہاں کھیت کا بوڑھا مالک آگیا۔
اس کی نظر جب سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے خرگوش پر پڑی تو اسے ترس آنے لگا مگر جب اپنی فصل کی خرابی کا خیال آیا تو اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ گوبھی کے پتے ایسی مرغوب غذا نہیں تھی کہ خرگوش اسے خراب کرتے۔
بوڑھے مالک نے خرگوشوں کو بھگانے کی بجائے ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی سردی سے مرکھپ جائیں گے۔
ایک دن ایک خرگوش کی نظر کھیت میں لگے پتلے پر پڑی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں پتلے پر گرم قمیض پڑی ہوئی تھی اور سر پر بڑا سا ہیٹ تھا۔یہ کھیت میں پرندوں کو بھگانے کے لیے نصب کیا گیا تھا گرم کپڑے دیکھ کر اس نے اپنے ساتھی کو فورا بلایا وہ دونوں قریبا بھاگتے ہوئے اس پتلے کے پاس پہنچے پہلے تو انہوں نے اپنی عقل پر افسوس کیا کہ کئی دن سے وہ پتلا وہاں موجود تھا مگر انہیں ذرا بھی اسکا خیال نہیں آیا۔
ایک خرگوش نے پتلے کی نیلے رنگ کی قمیض اتار کر پہن لی جبکہ دوسرے نے سر کو سردی سے بچانے کے لئے پتلے کا ہیٹ پہن لیا۔
اس طرح انھیں سردی سے بچنے کے لیے کپڑوں کی تنگی سے نجات مل گئی تھی پتلے کی ٹانگوں میں جوتے بھی تھے جو اوس پڑنے سے کافی بھیگ چکے تھے۔ ہیٹ پہننے والے خرگوش نے وہ جوتے لیے اور ان کا پانی نچوڑ کر انہیں پاؤں میں پہن لیا زمین سے پہنچنے والی ٹھنڈک سے وہ محفوظ ہو چکا تھا۔
دونوں خرگوشوں نے سردی سے سکون ملنے پر خوراک کی تلاش شروع کردی کیونکہ گاجروں کے بغیر ان کی زندگی پھیکی پڑ چکی تھی۔
وہ دونوں خرگوش چلتے چلتے گوبھی کے کھیت میں پہنچ گئے ایک خرگوش نے گوبھی کا بڑا پتا توڑا اور منہ میں ڈال کر چبایا وہ ذائقہ میں پھس پھسا تھا۔ اس نے گوبھی کا پتہ پھینکا اور آگے بڑھ گیا۔
وہ دونوں چلتے چلتے کھیت کے مالک کے گھر کے قریب پہنچ گئے اس طرف کبھی پہلے آنے کا انہیں اتفاق نہیں ہوا تھا گھر کو دیکھ کر انھیں کسی قدر حوصلہ ہوا کہ یہاں انہیں کھانے پینے کا سامان ضرور مل جائے گا۔ وہ کچھ آگے بڑھے تو گرم گرم ہوا کی لہر نے ان کے بدن کو سکون بخشا یہ گرم ہوا دیوار کی دوسری طرف سے آرہی تھی خرگوشوں نے جھانک کر اس طرف دیکھا تو انہیں وہاں ایک آتش دان جلتا ہوا دکھائی دیا جس کے قریب ایک بلی لیٹی آرام کر رہی تھی۔
خرگوش گرمائی پا کر تو بے حد خوش ہوئے مگر بلی کو دیکھ کر وہ پریشان ہوگئے بلی کی موجودگی میں وہاں ٹھہرنا دشوار تھا۔وہ دونوں دیوار کی اوٹ میں دبک کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد جب بلی وہاں سے اٹھی اور ایک طرف چل دی تو وہ دونوں خرگوش اس کے تعقب میں چل پڑے۔ بلی ایک کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے وہاں ایک طرف پڑے ہوئے برتن میں سے دودھ پیا اور قریب موجود چھوٹے سے ٹوکری نما گھر میں گھس گئی جو سرکنڈوں سے بنایا گیا تھا۔
یہ بلی کو سردی سے محفوظ رکھتا تھا خرگوشوں نے جب بلی کا گھر دیکھا تو انہیں بڑا رشک آیا کہ انکے پاس ایسا گھر کیوں نہیں ہے۔
خرگوشوں کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی انہوں نے گھر کا خیال چھوڑ کر خوراک کی تلاش میں کمروں کے اندر گھومنا پھرنا شروع کردیا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں کئی بوریاں دکھائی دیں شاید یہ گودام تھا کچھ دیر کوشش کے بعد انہیں گاجروں کی ایک بڑی بوری مل گئی جس میں سے گاجریں باہر نکلیں پڑی تھی گاجریں دیکھ کر خرگوشوں کے منہ میں پانی بھر آیا انہوں نے فورا ان پر دھاوا بول دیا۔
ایک خرگوش کچھ سمجھدار واقع ہوا تھا اس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ انہیں لالچ سے کام نہیں لینا چاہیے۔ کیونکہ معلوم نہیں سردیوں کا موسم کب ختم ہوگا اور مالک کھیت میں گاجریں کب بوئے گا۔ اس لیے انہیں احتیاط سے خوراک استعمال کرنا چاہیے تاکہ سردی کا موسم بھی بیت جائے اور خوراک کی کمی بھی نہ ہو۔ دوسرے خرگوش نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور پھر دونوں نے تھوڑی مقدار میں گاجریں کھائیں۔
پیٹ جب بھر گیا تو انہیں رہنے کی فکر لاحق ہوئی کمروں میں کوئی ایسی محفوظ جگہ نہیں تھی جہاں وہ دبک کر پڑے رہتے۔ دوسرا یہ کھیت کے مالک کا گھر تھا اگر وہ انہیں دیکھ لیتا تو انہیں پکڑنے میں اسے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ سمجھدار خرگوش نے دوسرے سے کہا کہ بلی کچھ زیادہ بڑی نہیں ہے اگر اسے ڈرایا جائے تو وہ اپنے گھر سے دستبردار ہو سکتی ہے۔ دوسرے خرگوش نے پوچھا کہ بلی کو کیسے ڈرائیں ۔
سمجھدار خرگوش نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب ہے اگر یہ کارگر ہوئی تو ان کا مسئلہ حل ہوجائے جائے گا۔
وہ دونوں بلی کے ٹوکری نما گھر کے قریب پہنچے۔ سمجھدار خرگوش نے گھر کی دیوار سے منہ لگا کر عجیب عجیب سی آوازیں نکالیں بلی اندر آرام سے سو رہی تھی اس نے جب آوازیں سنیں تو وہ خوفزدہ ہو کر اٹھ بیٹھی۔
وہ ان آوازوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ سمجھدار خرگوش نے ایک بڑی سی ٹہنی ہاتھ میں لی اور جست لگا کر گھر کے اندر گھس گیا بلی اسے دیکھ کر سہم سی گئی۔ خرگوش نے ٹہنی زور سے بلی کی ناک پر دے ماری بلی کی ناک بڑی نازک ہوتی ہے اس لئے بلی پھدک کر گھر سے باہر نکل گئی وہ ان خرگوشوں سے بری طرح ڈر چکی تھی۔
دونوں خرگوشوں نے اس کے گرم گھر پر قبضہ جما لیا وہاں وہ سردی سے محفوظ رہ سکتے تھے کیونکہ قریب ہی آتشدان بھی موجود تھا جس کی گرم گرم لہریں کمرے کو گرم رکھتی تھیں۔ بلی نے بھی حالات سے سمجھوتہ کر لیا اس نے اپنا گھر ہمیشہ کے لئے خرگوشوں کے حوالے کر دیا تھا اور خود اس کی چھت پر اپنا بسیرا کرلیا۔
پیارے دوستوں اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں کسی کا نقصان نہیں کرنا چاہیے جیساکہ ان خرگوشوں نے کہا اور پھر کھیت کے مالک نے ترس آنے کے باوجود انہیں ان کے حال پر ہی چھوڑ دیا۔
دوسرا یہ کہ ہمیں مشکل وقت میں ہار نہیں ماننی چاہیے چاہے وقت جیسا بھی آجائے بلکہ ڈٹ کر اس کامقابلہ کرنا چاہیے جیساکہ ان خرگوشوں نے کیا خوراک تلاش کر کے اور بلی سے گھر لے کر بس اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کسی کا حق تو نہیں لے رہے۔
اگر آپ کو ہماری پوسٹ پسند آئے اور آپ کو لگے کہ اس سے کسی کی مدد ہو سکتی ہے تو برہ مہربانی اس پوسٹ کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر ضرور کریں ہوسکتا ہے کہ آپ کے ایک شیئر سے کسی کی زندگی بدل دے اور آپ سے گزارش ہے کہ ایک کمنٹ کر کے ہمیں اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کیجئے شکریہ۔
موسم سرما کے آغاز میں کھیت کے مالک نے گوبھی کی فصل کھیت میں لگائی۔ گوبھی کے بڑے بڑے پتے کچھ ہی دن بعد زمین سے نمودار ہونا شروع ہوگئے۔
حسب عادت خرگوشوں نے ان کی جڑوں میں گاجروں کی تلاش شروع کی مگر انہیں وہاں کچھ نہ ملا۔ خرگوش گاجریں نہ پا کر بہت پریشان ہوئے۔ مجبوری کے عالم میں غذا کی تلاش میں وہ ادھر ادھر نکل جاتے اور کچھ نہ کچھ ڈھونڈ کر گزارا کر لیا کرتے۔
جاڑے کا سخت موسم شروع ہوگیا تو خرگوشوں کے لیے زندگی گزارنا بہت دشوار ہوگیا۔ کھیت میں ایسی کوئی آرام دہ جگہ نہیں تھی جس سے وہ سردی سے محفوظ رہ سکتے۔
خرگوشوں کے پاس ایک ہی باریک سی سرخ رنگ کی چادر تھی جس میں وہ دونوں دبک کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے چادر اتنی بڑی اور گرم نہیں تھی کہ ان دونوں کو سردی سے محفوظ رکھ پاتی۔
ایک دن ایک خرگوش نے یہ فیصلہ کیا کہ چادر کو دوہری کرکے ایک ساتھی اوڑھ لیا کرے جبکہ دوسرا اس دوران بھاگ دوڑ کر اپنا جسم گرم کر لیا کرے۔ اس طرح کم از کم ایک خرگوش تو سردی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
دونوں خرگوش باری باری چادر اوڑھ کر گرمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے کھلے آسمان کے نیچے چادر زیادہ سودمند ثابت نہ ہوئی۔ سردی کے مارے ان کی جان نکلنے لگی۔ ایک دن ایک خرگوش کھیت کے نالے میں چادر اوڑھے ہوئے لیٹا پڑا تھا کہ وہاں کھیت کا بوڑھا مالک آگیا۔
اس کی نظر جب سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے خرگوش پر پڑی تو اسے ترس آنے لگا مگر جب اپنی فصل کی خرابی کا خیال آیا تو اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ گوبھی کے پتے ایسی مرغوب غذا نہیں تھی کہ خرگوش اسے خراب کرتے۔
بوڑھے مالک نے خرگوشوں کو بھگانے کی بجائے ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی سردی سے مرکھپ جائیں گے۔
ایک دن ایک خرگوش کی نظر کھیت میں لگے پتلے پر پڑی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں پتلے پر گرم قمیض پڑی ہوئی تھی اور سر پر بڑا سا ہیٹ تھا۔یہ کھیت میں پرندوں کو بھگانے کے لیے نصب کیا گیا تھا گرم کپڑے دیکھ کر اس نے اپنے ساتھی کو فورا بلایا وہ دونوں قریبا بھاگتے ہوئے اس پتلے کے پاس پہنچے پہلے تو انہوں نے اپنی عقل پر افسوس کیا کہ کئی دن سے وہ پتلا وہاں موجود تھا مگر انہیں ذرا بھی اسکا خیال نہیں آیا۔
ایک خرگوش نے پتلے کی نیلے رنگ کی قمیض اتار کر پہن لی جبکہ دوسرے نے سر کو سردی سے بچانے کے لئے پتلے کا ہیٹ پہن لیا۔
اس طرح انھیں سردی سے بچنے کے لیے کپڑوں کی تنگی سے نجات مل گئی تھی پتلے کی ٹانگوں میں جوتے بھی تھے جو اوس پڑنے سے کافی بھیگ چکے تھے۔ ہیٹ پہننے والے خرگوش نے وہ جوتے لیے اور ان کا پانی نچوڑ کر انہیں پاؤں میں پہن لیا زمین سے پہنچنے والی ٹھنڈک سے وہ محفوظ ہو چکا تھا۔
دونوں خرگوشوں نے سردی سے سکون ملنے پر خوراک کی تلاش شروع کردی کیونکہ گاجروں کے بغیر ان کی زندگی پھیکی پڑ چکی تھی۔
وہ دونوں خرگوش چلتے چلتے گوبھی کے کھیت میں پہنچ گئے ایک خرگوش نے گوبھی کا بڑا پتا توڑا اور منہ میں ڈال کر چبایا وہ ذائقہ میں پھس پھسا تھا۔ اس نے گوبھی کا پتہ پھینکا اور آگے بڑھ گیا۔
وہ دونوں چلتے چلتے کھیت کے مالک کے گھر کے قریب پہنچ گئے اس طرف کبھی پہلے آنے کا انہیں اتفاق نہیں ہوا تھا گھر کو دیکھ کر انھیں کسی قدر حوصلہ ہوا کہ یہاں انہیں کھانے پینے کا سامان ضرور مل جائے گا۔ وہ کچھ آگے بڑھے تو گرم گرم ہوا کی لہر نے ان کے بدن کو سکون بخشا یہ گرم ہوا دیوار کی دوسری طرف سے آرہی تھی خرگوشوں نے جھانک کر اس طرف دیکھا تو انہیں وہاں ایک آتش دان جلتا ہوا دکھائی دیا جس کے قریب ایک بلی لیٹی آرام کر رہی تھی۔
خرگوش گرمائی پا کر تو بے حد خوش ہوئے مگر بلی کو دیکھ کر وہ پریشان ہوگئے بلی کی موجودگی میں وہاں ٹھہرنا دشوار تھا۔وہ دونوں دیوار کی اوٹ میں دبک کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد جب بلی وہاں سے اٹھی اور ایک طرف چل دی تو وہ دونوں خرگوش اس کے تعقب میں چل پڑے۔ بلی ایک کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے وہاں ایک طرف پڑے ہوئے برتن میں سے دودھ پیا اور قریب موجود چھوٹے سے ٹوکری نما گھر میں گھس گئی جو سرکنڈوں سے بنایا گیا تھا۔
یہ بلی کو سردی سے محفوظ رکھتا تھا خرگوشوں نے جب بلی کا گھر دیکھا تو انہیں بڑا رشک آیا کہ انکے پاس ایسا گھر کیوں نہیں ہے۔
خرگوشوں کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی انہوں نے گھر کا خیال چھوڑ کر خوراک کی تلاش میں کمروں کے اندر گھومنا پھرنا شروع کردیا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں کئی بوریاں دکھائی دیں شاید یہ گودام تھا کچھ دیر کوشش کے بعد انہیں گاجروں کی ایک بڑی بوری مل گئی جس میں سے گاجریں باہر نکلیں پڑی تھی گاجریں دیکھ کر خرگوشوں کے منہ میں پانی بھر آیا انہوں نے فورا ان پر دھاوا بول دیا۔
ایک خرگوش کچھ سمجھدار واقع ہوا تھا اس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ انہیں لالچ سے کام نہیں لینا چاہیے۔ کیونکہ معلوم نہیں سردیوں کا موسم کب ختم ہوگا اور مالک کھیت میں گاجریں کب بوئے گا۔ اس لیے انہیں احتیاط سے خوراک استعمال کرنا چاہیے تاکہ سردی کا موسم بھی بیت جائے اور خوراک کی کمی بھی نہ ہو۔ دوسرے خرگوش نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور پھر دونوں نے تھوڑی مقدار میں گاجریں کھائیں۔
پیٹ جب بھر گیا تو انہیں رہنے کی فکر لاحق ہوئی کمروں میں کوئی ایسی محفوظ جگہ نہیں تھی جہاں وہ دبک کر پڑے رہتے۔ دوسرا یہ کھیت کے مالک کا گھر تھا اگر وہ انہیں دیکھ لیتا تو انہیں پکڑنے میں اسے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ سمجھدار خرگوش نے دوسرے سے کہا کہ بلی کچھ زیادہ بڑی نہیں ہے اگر اسے ڈرایا جائے تو وہ اپنے گھر سے دستبردار ہو سکتی ہے۔ دوسرے خرگوش نے پوچھا کہ بلی کو کیسے ڈرائیں ۔
سمجھدار خرگوش نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب ہے اگر یہ کارگر ہوئی تو ان کا مسئلہ حل ہوجائے جائے گا۔
وہ دونوں بلی کے ٹوکری نما گھر کے قریب پہنچے۔ سمجھدار خرگوش نے گھر کی دیوار سے منہ لگا کر عجیب عجیب سی آوازیں نکالیں بلی اندر آرام سے سو رہی تھی اس نے جب آوازیں سنیں تو وہ خوفزدہ ہو کر اٹھ بیٹھی۔
وہ ان آوازوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ سمجھدار خرگوش نے ایک بڑی سی ٹہنی ہاتھ میں لی اور جست لگا کر گھر کے اندر گھس گیا بلی اسے دیکھ کر سہم سی گئی۔ خرگوش نے ٹہنی زور سے بلی کی ناک پر دے ماری بلی کی ناک بڑی نازک ہوتی ہے اس لئے بلی پھدک کر گھر سے باہر نکل گئی وہ ان خرگوشوں سے بری طرح ڈر چکی تھی۔
دونوں خرگوشوں نے اس کے گرم گھر پر قبضہ جما لیا وہاں وہ سردی سے محفوظ رہ سکتے تھے کیونکہ قریب ہی آتشدان بھی موجود تھا جس کی گرم گرم لہریں کمرے کو گرم رکھتی تھیں۔ بلی نے بھی حالات سے سمجھوتہ کر لیا اس نے اپنا گھر ہمیشہ کے لئے خرگوشوں کے حوالے کر دیا تھا اور خود اس کی چھت پر اپنا بسیرا کرلیا۔
پیارے دوستوں اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں کسی کا نقصان نہیں کرنا چاہیے جیساکہ ان خرگوشوں نے کہا اور پھر کھیت کے مالک نے ترس آنے کے باوجود انہیں ان کے حال پر ہی چھوڑ دیا۔
دوسرا یہ کہ ہمیں مشکل وقت میں ہار نہیں ماننی چاہیے چاہے وقت جیسا بھی آجائے بلکہ ڈٹ کر اس کامقابلہ کرنا چاہیے جیساکہ ان خرگوشوں نے کیا خوراک تلاش کر کے اور بلی سے گھر لے کر بس اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کسی کا حق تو نہیں لے رہے۔
اگر آپ کو ہماری پوسٹ پسند آئے اور آپ کو لگے کہ اس سے کسی کی مدد ہو سکتی ہے تو برہ مہربانی اس پوسٹ کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر ضرور کریں ہوسکتا ہے کہ آپ کے ایک شیئر سے کسی کی زندگی بدل دے اور آپ سے گزارش ہے کہ ایک کمنٹ کر کے ہمیں اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کیجئے شکریہ۔
Comments
Post a Comment